Breaking News
recent

ان کا چہرہ شال سے ڈھکا ہوا تھا، پیر سوجے ہوئے تھے، آنکھیں خشک تھیں، وہ اپنے ہاتھوں میں اپنے بھائی کی تصویر مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھیں۔ یہ فرزانہ ...مجید تھیں، جو کوئٹہ سے کراچی تک کا ساڑھے چار سو میل کا دشوار گزار سفر پچھلے نو دنوں سے آہستہ آہستہ پیدل چل کر طے کررہی ہیں۔
درحقیقت یہ تکلیف دہ سفر فرزانہ نے چار سال پہلے ہی شروع کردیا تھا، جب ان کے خاندان کو اپنے گھر پر ایک اطلاع موصول ہوئی کہ ان کے بھائی کو سفر کے دوران مستونگ سے اُٹھالیا گیا ہے۔ ہزاروں ایسے نوجوان جنہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی لاشوں کو مسخ کردیا گیا تھا، جو اسی طرح کے حالات میں لاپتہ ہوگئے تھے اور انہیں بلوچستان کے مختلف مقامات پر پھینک دیا گیا تھا، کی تدفین میں شرکت کرنے کے بعد فرزانہ یہ بات اچھی طرح جان گئی تھیں کہ ان کے بھائی بھی کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہوگا۔
فرزانہ کے بھائی ذاکر مجید بلوچستان یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے طالبعلم تھے۔ اپنی قائدانہ اور ابلاغ کی بہترین صلاحیتوں اور بلوچ عوام کے حقوق کے گہرے احساس کے ساتھ ذاکر، یونیورسٹی کی سرگرمیوں میں بہت زیادہ فعال تھے۔ ذاکر کے نام کے ساتھ تشدد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا، اور ان کے نزدیک احتجاج سے مُراد امن و سکون کے ساتھ اپنا مؤقف بیان کرنا اور اپنے حقوق کے لیے جدو جہدکرنا تھا۔
فرزانہ خود بھی بایو کیمسٹری میں گریجویٹ ہیں، اور انہوں نے حال ہی میں بلوچستان یونیورسٹی کے ماسٹر آف فلاسفی میں داخلہ لیا تھا۔ ان کی تعلیمی کامیابیاں بلوچستان کی ایک عورت کے غیر معمولی کارنامے ہیں، جہاں تعلیم کے لحاظ سے تبدیلی کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔ لیکن جب سے ان کے بھائی لاپتہ ہوئے ہیں، فرزانہ کی زندگی میں نہ رکنے والا تکالیف کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ یونیورسٹی کی کلاس میں حاضری اب ایک شاہ خرچی بن گئی ہے، جس کی وہ متحمل نہیں ہوسکتیں۔
وہ ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچ کر مختلف پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ قائم کرتی ہیں، عدالت کی سماعتوں میں شریک ہوتی ہیں اور لاپتہ ہونے والے سینکڑوں دیگر بلوچ نوجوانوں کے فیملیز کے ساتھ مل کر ریلیوں کا انتظام کرتی ہیں۔ اپنے بھائی کی تلاش میں فرزانہ نے ہر ایک کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
جب بھی وہ کراچی یا بلوچستان میں کسی جگہ ایک تشدد کرنے کے بعد پھینکی گئی لاش کے بارے میں سنتی ہیں، تو وہ ہر مرتبہ مردہ خانے یہ دعا کرتے ہوئے جاتی ہیں کہ یہ ان کے بھائی نہیں ہوں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ فرزانہ کے دل میں اپنے بھائی کی بازیابی کی امید ختم ہوتی جاتی ہے۔ چند ماہ قبل دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا:
”انہیں ایک قلی کیمپ میں رکھا گیا تھا۔ دیگر افراد جو اس کیمپ میں لائے گئے تھے، بعد میں رہا ہوکر ہمارے لیے ان کا پیغام لائے تھے۔ انہوں نے اپنی محبت ہمارے لیے بھیجی تھی۔ انہوں نے اپنی قمیض کے بٹن نوچ کر ہمارے لیے بھیجے تھے کہ تاکہ ہمیں یہ یقین آجائے کہ وہ زندہ تھے۔“
ان کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتیں کہ وہ اپنی ضعیف والدہ کو کس طرح تسلی دیں یا کیسے انہیں یہ امید دلائیں کہ ایک دن ذاکر زندہ گھر لوٹ آئیں گے اور وہ مسخ شدہ لاش کی صورت میں نہیں آئیں گے۔
فرزانہ کی یہ دلدوز داستان اور سینکڑوں دیگر بلوچ خاندانوں کی حالتِ زار نہ تو مغرب کے لیے اور نہ ہی پاکستان کے لوگوں کے لیے سنسنی خیز خبر کا درجہ بن سکی ہے، یا پھر ان کی خاطرخواہ توجہ کھینچنے کے لیے اہم جواز پیدانہیں کرسکی ہے۔ جب پندرہ برس کی ملالہ کو گولی ماری گئی تھی، تو عالمی سطح پر اس بے رحم حملے کے خلاف ایک شور و غوغا سا مچ گیا تھا۔
اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون اور امریکا کے صدر دونوں نے تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے کیے گئے اس بزدلانہ حملے کے خلاف مذمتی بیانات جاری کیے تھے۔ ملالہ جلد ہی دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک طاقتور علامت بن گئی تھیں۔ سوات کی وادی میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق کو محفوظ بنانے کے لیے ان کی جنگ کو مناسب طریقے سے اُٹھایا گیا اور عالمی سطح پر اس کی تعریف کی گئی۔
ان کے معاملے میں طالبان نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا، جو ایک واضح دشمن ہیں۔ نہ ہی طالبان کی مذمت کرتے ہوئے سفارتی تعلقات کی بربادی کا کوئی خطرہ لاحق ہوا تھا، اور یقیناً اس سے کسی طرح کی اتحادی لائف لائن منقطع ہونے کا خطرہ بھی نہیں تھا۔ ملالہ کی حمایت سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی متاثر نہیں ہورہی تھی۔ کچھ بھی ہو یہ حمایت قانونی ہوگی۔
ایک نوجوان لڑکی نبیلہ رحمان، جن کی دادی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئی تھیں، حال ہی میں امریکی کانگریس کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے اس وقت واشنگٹن میں ہیں۔
وہ واشنگٹن ڈی سی میں امریکی قانون سازوں، امریکی عوام اور باقی دنیا کے سامنے اپنی اور دیگر معصوم متاثرین کی داستان بیان کررہی ہیں۔نبیلہ کو ایک بین الاقوامی اسٹیج حاصل ہوگیا ہے، جس کے ذریعے وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کراسکیں اور انہوں نے مشتمل امریکی اور بین الاقوامی میڈیا کو کئی گھنٹوں پر انٹرویوز ریکارد کروائے ہیں۔
پاکستان بھر کے شہری خوش نہیں ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ نبیلہ کو اس سے زیادہ توجہ ملنی چاہئے تھی، لیکن ملالہ کے مقابلے میں انہیں کافی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ وہ اس بات پر بھی پریشان ہیں کہ کانگریس کی سماعت کے دوران جب نبیلہ نے اپنی گواہی پیش کررہی تھیں تو اس وقت اراکین کانگریس کی موجودگی بہت کم (محض پانچ سینیٹر) تھی۔
پاکستان بھر میں لوگ نبیلہ اور ڈرون حملوں سے متاثر ہونے والے دیگر افراد کی حالت زار کے حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی اور توجہ بیدار کرنے کے لیے آن لائن ترغیب دے رہے ہیں۔
لہٰذا جب ملالہ کو اپنے مقصد کے لیے مغرب کی حمایت حاصل ہے، نبیلہ پاکستان کے عوام کی بھاری حمایت کو اپنے حق میں محفوظ کر چکی ہیں۔ ایسے میں ایک بہن فرزانہ ، اپنے بھائی کی گمشدگی کا سوال لیے ہمیشہ کی طرح تنہا ہی کھڑی ہے۔ اور تاحال وہ مسلسل مارچ کررہی ہیں۔
بہت سی بین الاقوامی طاقتوں کے نزدیک بلوچستان کے بارے میں بات کرنے اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات پر بات کرنے سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں پیچیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ پہلے ہی تیزی سے بحران کا شکار ہوتے پاکستان کے ساتھ بہت سی مغربی طاقتوں کے تعلقات غیر فعال ہوتے جارہے ہیں۔ چنانچہ بلوچ کاز کے لیے بات کرنے کا سردرد کون پالے گا، مختصراً یہ کہ اس سے ان کے اپنے قومی سلامتی کے مفادات براہِ راست اثر پڑتا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کے لیے بلوچستان مکمل طور پر ایک ”نو گو ایریا“ بنا ہوا ہے، صرف یہی وجہ نہیں ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر باہر کے لوگوں کے لیے غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ انٹیلی جنس حکام کی طرف سے صحافیوں اور کیمرہ مینوں کو اجازت دینے سے فوری طور پر انکار کردیا جاتا ہے۔ شاید پاکستان کے اپنے مقامی میڈیا کو بلوچستان سے مکمل طور پر یا محدود طرزوں میں اسٹوریز باہر لے جانے پر سخت ہدایات دی گئی ہیں۔
لوگوں کی بڑی تعداد کا اس بات پر یقین کرنا بہت زیادہ آسان ہے کہ ایک قوم کی خودمختاری کی خلاف ورزی صرف بیرونی طاقتوں کی جانب سے ہوسکتی ہے۔
جس طرح ڈرون حملوں کے متاثرین کے لیے ماضی میں ریلیاں نکالی جاتی رہی ہیں، اس طرح کی کوئی ریلی کراچی، لاہور یا اسلام آباد میں نہیں نکالی گئی۔ نہ ہی کبھی اس حقیقت کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ نبیلہ کس طرح طویل فضائی سفر طے کر کے واشنگٹن ڈی سی میں امریکی کانگریس کے سامنے یہ سوال کرنے پہنچی کہ ”اس کی دادی امّاں کو تم نے کیوں مارا؟“
ایسا ہی سوال پاکستان کی اپنے پارلیمنٹ کے ایوان میں آخر فرزانہ کیوں نہیں پوچھ سکتیں؟ کیا فرزانہ پاکستانی قانون سازوں سے یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتیں کہ ”میرا بھائی کہاں ہے؟“

فرزانہ مجید کے بھائی اور تمام لاپتہ بلوچ خواتین و حضرات بدقسمتی سے ڈرون حملوں کے متاثرین نہیں ہیں، نہ ہی وہ طالبان کی بربریت کے متاثرین ہیں۔اس کے باوجود وہ اب تک ایک معلوم اور نامعلوم دشمن کے ہاتھوں سے متاثر ہوئے ہیں، جو ان کے بنیادی حقوق کے مطالبے اور ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے دشمن ہیں۔

فرزانہ کا سفر جاری ہے، وہ جانتی ہیں کہ جب وہ کراچی پہنچیں گی تو وہاں ان کے لیے نہ ہی سیاستدان ہوں گے یا عوام کا ہجوم ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے ان کا منتظر ہوگا۔ حکومت اور پاکستانی عوام کو تو چھوڑیے اقوامِ متحدہ اور اہم عالمی طاقتیں بھی ان کے بھائی کی گمشدگی کی مذمت نہیں کریں گی۔

انہیں اس جنگ میں تنہا ہی لڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک ایسی جنگ جسے وہ اس وقت تک ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جب تک کہ ان کے بھائی ان کی امید کے مطابق زندہ گھر واپس نہیں آجاتے
درحقیقت یہ تکلیف دہ سفر فرزانہ نے چار سال پہلے ہی شروع کردیا تھا، جب ان کے خاندان کو اپنے گھر پر ایک اطلاع موصول ہوئی کہ ان کے بھائی کو سفر کے دوران مستونگ سے اُٹھالیا گیا ہے۔ ہزاروں ایسے نوجوان جنہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی لاشوں کو مسخ کردیا گیا تھا، جو اسی طرح کے حالات میں لاپتہ ہوگئے تھے اور انہیں بلوچستان کے مختلف مقامات پر پھینک دیا گیا تھا، کی تدفین میں شرکت کرنے کے بعد فرزانہ یہ بات اچھی طرح جان گئی تھیں کہ ان کے بھائی بھی کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہوگا۔ فرزانہ کے بھائی ذاکر مجید بلوچستان یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے طالبعلم تھے۔ اپنی قائدانہ اور ابلاغ کی بہترین صلاحیتوں اور بلوچ عوام کے حقوق کے گہرے احساس کے ساتھ ذاکر، یونیورسٹی کی سرگرمیوں میں بہت زیادہ فعال تھے۔ ذاکر کے نام کے ساتھ تشدد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا، اور ان کے نزدیک احتجاج سے مُراد امن و سکون کے ساتھ اپنا مؤقف بیان کرنا اور اپنے حقوق کے لیے جدو جہدکرنا تھا۔ فرزانہ خود بھی بایو کیمسٹری میں گریجویٹ ہیں، اور انہوں نے حال ہی میں بلوچستان یونیورسٹی کے ماسٹر آف فلاسفی میں داخلہ لیا تھا۔ ان کی تعلیمی کامیابیاں بلوچستان کی ایک عورت کے غیر معمولی کارنامے ہیں، جہاں تعلیم کے لحاظ سے تبدیلی کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔ لیکن جب سے ان کے بھائی لاپتہ ہوئے ہیں، فرزانہ کی زندگی میں نہ رکنے والا تکالیف کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ یونیورسٹی کی کلاس میں حاضری اب ایک شاہ خرچی بن گئی ہے، جس کی وہ متحمل نہیں ہوسکتیں۔ وہ ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچ کر مختلف پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ قائم کرتی ہیں، عدالت کی سماعتوں میں شریک ہوتی ہیں اور لاپتہ ہونے والے سینکڑوں دیگر بلوچ نوجوانوں کے فیملیز کے ساتھ مل کر ریلیوں کا انتظام کرتی ہیں۔ اپنے بھائی کی تلاش میں فرزانہ نے ہر ایک کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ جب بھی وہ کراچی یا بلوچستان میں کسی جگہ ایک تشدد کرنے کے بعد پھینکی گئی لاش کے بارے میں سنتی ہیں، تو وہ ہر مرتبہ مردہ خانے یہ دعا کرتے ہوئے جاتی ہیں کہ یہ ان کے بھائی نہیں ہوں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ فرزانہ کے دل میں اپنے بھائی کی بازیابی کی امید ختم ہوتی جاتی ہے۔ چند ماہ قبل دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا:”انہیں ایک قلی کیمپ میں رکھا گیا تھا۔ دیگر افراد جو اس کیمپ میں لائے گئے تھے، بعد میں رہا ہوکر ہمارے لیے ان کا پیغام لائے تھے۔ انہوں نے اپنی محبت ہمارے لیے بھیجی تھی۔ انہوں نے اپنی قمیض کے بٹن نوچ کر ہمارے لیے بھیجے تھے کہ تاکہ ہمیں یہ یقین آجائے کہ وہ زندہ تھے۔“ان کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتیں کہ وہ اپنی ضعیف والدہ کو کس طرح تسلی دیں یا کیسے انہیں یہ امید دلائیں کہ ایک دن ذاکر زندہ گھر لوٹ آئیں گے اور وہ مسخ شدہ لاش کی صورت میں نہیں آئیں گے۔ فرزانہ کی یہ دلدوز داستان اور سینکڑوں دیگر بلوچ خاندانوں کی حالتِ زار نہ تو مغرب کے لیے اور نہ ہی پاکستان کے لوگوں کے لیے سنسنی خیز خبر کا درجہ بن سکی ہے، یا پھر ان کی خاطرخواہ توجہ کھینچنے کے لیے اہم جواز پیدانہیں کرسکی ہے۔ جب پندرہ برس کی ملالہ کو گولی ماری گئی تھی، تو عالمی سطح پر اس بے رحم حملے کے خلاف ایک شور و غوغا سا مچ گیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون اور امریکا کے صدر دونوں نے تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے کیے گئے اس بزدلانہ حملے کے خلاف مذمتی بیانات جاری کیے تھے۔ ملالہ جلد ہی دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک طاقتور علامت بن گئی تھیں۔ سوات کی وادی میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق کو محفوظ بنانے کے لیے ان کی جنگ کو مناسب طریقے سے اُٹھایا گیا اور عالمی سطح پر اس کی تعریف کی گئی۔ ان کے معاملے میں طالبان نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا، جو ایک واضح دشمن ہیں۔ نہ ہی طالبان کی مذمت کرتے ہوئے سفارتی تعلقات کی بربادی کا کوئی خطرہ لاحق ہوا تھا، اور یقیناً اس سے کسی طرح کی اتحادی لائف لائن منقطع ہونے کا خطرہ بھی نہیں تھا۔ ملالہ کی حمایت سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی متاثر نہیں ہورہی تھی۔ کچھ بھی ہو یہ حمایت قانونی ہوگی۔ ایک نوجوان لڑکی نبیلہ رحمان، جن کی دادی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئی تھیں، حال ہی میں امریکی کانگریس کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے اس وقت واشنگٹن میں ہیں۔ وہ واشنگٹن ڈی سی میں امریکی قانون سازوں، امریکی عوام اور باقی دنیا کے سامنے اپنی اور دیگر معصوم متاثرین کی داستان بیان کررہی ہیں۔نبیلہ کو ایک بین الاقوامی اسٹیج حاصل ہوگیا ہے، جس کے ذریعے وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کراسکیں اور انہوں نے مشتمل امریکی اور بین الاقوامی میڈیا کو کئی گھنٹوں پر انٹرویوز ریکارد کروائے ہیں۔ پاکستان بھر کے شہری خوش نہیں ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ نبیلہ کو اس سے زیادہ توجہ ملنی چاہئے تھی، لیکن ملالہ کے مقابلے میں انہیں کافی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ وہ اس بات پر بھی پریشان ہیں کہ کانگریس کی سماعت کے دوران جب نبیلہ نے اپنی گواہی پیش کررہی تھیں تو اس وقت اراکین کانگریس کی موجودگی بہت کم (محض پانچ سینیٹر) تھی۔ پاکستان بھر میں لوگ نبیلہ اور ڈرون حملوں سے متاثر ہونے والے دیگر افراد کی حالت زار کے حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی اور توجہ بیدار کرنے کے لیے آن لائن ترغیب دے رہے ہیں۔ لہٰذا جب ملالہ کو اپنے مقصد کے لیے مغرب کی حمایت حاصل ہے، نبیلہ پاکستان کے عوام کی بھاری حمایت کو اپنے حق میں محفوظ کر چکی ہیں۔ ایسے میں ایک بہن فرزانہ ، اپنے بھائی کی گمشدگی کا سوال لیے ہمیشہ کی طرح تنہا ہی کھڑی ہے۔ اور تاحال وہ مسلسل مارچ کررہی ہیں۔ بہت سی بین الاقوامی طاقتوں کے نزدیک بلوچستان کے بارے میں بات کرنے اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات پر بات کرنے سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں پیچیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ پہلے ہی تیزی سے بحران کا شکار ہوتے پاکستان کے ساتھ بہت سی مغربی طاقتوں کے تعلقات غیر فعال ہوتے جارہے ہیں۔ چنانچہ بلوچ کاز کے لیے بات کرنے کا سردرد کون پالے گا، مختصراً یہ کہ اس سے ان کے اپنے قومی سلامتی کے مفادات براہِ راست اثر پڑتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے لیے بلوچستان مکمل طور پر ایک ”نو گو ایریا“ بنا ہوا ہے، صرف یہی وجہ نہیں ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر باہر کے لوگوں کے لیے غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ انٹیلی جنس حکام کی طرف سے صحافیوں اور کیمرہ مینوں کو اجازت دینے سے فوری طور پر انکار کردیا جاتا ہے۔ شاید پاکستان کے اپنے مقامی میڈیا کو بلوچستان سے مکمل طور پر یا محدود طرزوں میں اسٹوریز باہر لے جانے پر سخت ہدایات دی گئی ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد کا اس بات پر یقین کرنا بہت زیادہ آسان ہے کہ ایک قوم کی خودمختاری کی خلاف ورزی صرف بیرونی طاقتوں کی جانب سے ہوسکتی ہے۔ جس طرح ڈرون حملوں کے متاثرین کے لیے ماضی میں ریلیاں نکالی جاتی رہی ہیں، اس طرح کی کوئی ریلی کراچی، لاہور یا اسلام آباد میں نہیں نکالی گئی۔ نہ ہی کبھی اس حقیقت کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ نبیلہ کس طرح طویل فضائی سفر طے کر کے واشنگٹن ڈی سی میں امریکی کانگریس کے سامنے یہ سوال کرنے پہنچی کہ ”اس کی دادی امّاں کو تم نے کیوں مارا؟“ایسا ہی سوال پاکستان کی اپنے پارلیمنٹ کے ایوان میں آخر فرزانہ کیوں نہیں پوچھ سکتیں؟ کیا فرزانہ پاکستانی قانون سازوں سے یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتیں کہ ”میرا بھائی کہاں ہے؟“
فرزانہ مجید کے بھائی اور تمام لاپتہ بلوچ خواتین و حضرات بدقسمتی سے ڈرون حملوں کے متاثرین نہیں ہیں، نہ ہی وہ طالبان کی بربریت کے متاثرین ہیں۔اس کے باوجود وہ اب تک ایک معلوم اور نامعلوم دشمن کے ہاتھوں سے متاثر ہوئے ہیں، جو ان کے بنیادی حقوق کے مطالبے اور ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے دشمن ہیں۔
فرزانہ کا سفر جاری ہے، وہ جانتی ہیں کہ جب وہ کراچی پہنچیں گی تو وہاں ان کے لیے نہ ہی سیاستدان ہوں گے یا عوام کا ہجوم ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے ان کا منتظر ہوگا۔ حکومت اور پاکستانی عوام کو تو چھوڑیے اقوامِ متحدہ اور اہم عالمی طاقتیں بھی ان کے بھائی کی گمشدگی کی مذمت نہیں کریں گی۔
انہیں اس جنگ میں تنہا ہی لڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک ایسی جنگ جسے وہ اس وقت تک ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جب تک کہ ان کے بھائی ان کی امید کے مطابق زندہ گھر واپس نہیں آجاتے درحقیقت یہ تکلیف دہ سفر فرزانہ نے چار سال پہلے ہی شروع کردیا تھا، جب ان کے خاندان کو اپنے گھر پر ایک اطلاع موصول ہوئی کہ ان کے بھائی کو سفر کے دوران مستونگ سے اُٹھالیا گیا ہے۔ ہزاروں ایسے نوجوان جنہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان کی لاشوں کو مسخ کردیا گیا تھا، جو اسی طرح کے حالات میں لاپتہ ہوگئے تھے اور انہیں بلوچستان کے مختلف مقامات پر پھینک دیا گیا تھا، کی تدفین میں شرکت کرنے کے بعد فرزانہ یہ بات اچھی طرح جان گئی تھیں کہ ان کے بھائی بھی کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہوگا۔ فرزانہ کے بھائی ذاکر مجید بلوچستان یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے طالبعلم تھے۔ اپنی قائدانہ اور ابلاغ کی بہترین صلاحیتوں اور بلوچ عوام کے حقوق کے گہرے احساس کے ساتھ ذاکر، یونیورسٹی کی سرگرمیوں میں بہت زیادہ فعال تھے۔ ذاکر کے نام کے ساتھ تشدد کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا، اور ان کے نزدیک احتجاج سے مُراد امن و سکون کے ساتھ اپنا مؤقف بیان کرنا اور اپنے حقوق کے لیے جدو جہدکرنا تھا۔ فرزانہ خود بھی بایو کیمسٹری میں گریجویٹ ہیں، اور انہوں نے حال ہی میں بلوچستان یونیورسٹی کے ماسٹر آف فلاسفی میں داخلہ لیا تھا۔ ان کی تعلیمی کامیابیاں بلوچستان کی ایک عورت کے غیر معمولی کارنامے ہیں، جہاں تعلیم کے لحاظ سے تبدیلی کی شرح دنیا میں سب سے کم ہے۔ لیکن جب سے ان کے بھائی لاپتہ ہوئے ہیں، فرزانہ کی زندگی میں نہ رکنے والا تکالیف کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ یونیورسٹی کی کلاس میں حاضری اب ایک شاہ خرچی بن گئی ہے، جس کی وہ متحمل نہیں ہوسکتیں۔ وہ ایک شہر سے دوسرے شہر پہنچ کر مختلف پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ قائم کرتی ہیں، عدالت کی سماعتوں میں شریک ہوتی ہیں اور لاپتہ ہونے والے سینکڑوں دیگر بلوچ نوجوانوں کے فیملیز کے ساتھ مل کر ریلیوں کا انتظام کرتی ہیں۔ اپنے بھائی کی تلاش میں فرزانہ نے ہر ایک کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ جب بھی وہ کراچی یا بلوچستان میں کسی جگہ ایک تشدد کرنے کے بعد پھینکی گئی لاش کے بارے میں سنتی ہیں، تو وہ ہر مرتبہ مردہ خانے یہ دعا کرتے ہوئے جاتی ہیں کہ یہ ان کے بھائی نہیں ہوں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ فرزانہ کے دل میں اپنے بھائی کی بازیابی کی امید ختم ہوتی جاتی ہے۔ چند ماہ قبل دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا:”انہیں ایک قلی کیمپ میں رکھا گیا تھا۔ دیگر افراد جو اس کیمپ میں لائے گئے تھے، بعد میں رہا ہوکر ہمارے لیے ان کا پیغام لائے تھے۔ انہوں نے اپنی محبت ہمارے لیے بھیجی تھی۔ انہوں نے اپنی قمیض کے بٹن نوچ کر ہمارے لیے بھیجے تھے کہ تاکہ ہمیں یہ یقین آجائے کہ وہ زندہ تھے۔“ان کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتیں کہ وہ اپنی ضعیف والدہ کو کس طرح تسلی دیں یا کیسے انہیں یہ امید دلائیں کہ ایک دن ذاکر زندہ گھر لوٹ آئیں گے اور وہ مسخ شدہ لاش کی صورت میں نہیں آئیں گے۔ فرزانہ کی یہ دلدوز داستان اور سینکڑوں دیگر بلوچ خاندانوں کی حالتِ زار نہ تو مغرب کے لیے اور نہ ہی پاکستان کے لوگوں کے لیے سنسنی خیز خبر کا درجہ بن سکی ہے، یا پھر ان کی خاطرخواہ توجہ کھینچنے کے لیے اہم جواز پیدانہیں کرسکی ہے۔ جب پندرہ برس کی ملالہ کو گولی ماری گئی تھی، تو عالمی سطح پر اس بے رحم حملے کے خلاف ایک شور و غوغا سا مچ گیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون اور امریکا کے صدر دونوں نے تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے کیے گئے اس بزدلانہ حملے کے خلاف مذمتی بیانات جاری کیے تھے۔ ملالہ جلد ہی دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ایک طاقتور علامت بن گئی تھیں۔ سوات کی وادی میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق کو محفوظ بنانے کے لیے ان کی جنگ کو مناسب طریقے سے اُٹھایا گیا اور عالمی سطح پر اس کی تعریف کی گئی۔ ان کے معاملے میں طالبان نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا، جو ایک واضح دشمن ہیں۔ نہ ہی طالبان کی مذمت کرتے ہوئے سفارتی تعلقات کی بربادی کا کوئی خطرہ لاحق ہوا تھا، اور یقیناً اس سے کسی طرح کی اتحادی لائف لائن منقطع ہونے کا خطرہ بھی نہیں تھا۔ ملالہ کی حمایت سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی متاثر نہیں ہورہی تھی۔ کچھ بھی ہو یہ حمایت قانونی ہوگی۔ ایک نوجوان لڑکی نبیلہ رحمان، جن کی دادی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئی تھیں، حال ہی میں امریکی کانگریس کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے اس وقت واشنگٹن میں ہیں۔ وہ واشنگٹن ڈی سی میں امریکی قانون سازوں، امریکی عوام اور باقی دنیا کے سامنے اپنی اور دیگر معصوم متاثرین کی داستان بیان کررہی ہیں۔نبیلہ کو ایک بین الاقوامی اسٹیج حاصل ہوگیا ہے، جس کے ذریعے وہ اپنا احتجاج ریکارڈ کراسکیں اور انہوں نے مشتمل امریکی اور بین الاقوامی میڈیا کو کئی گھنٹوں پر انٹرویوز ریکارد کروائے ہیں۔ پاکستان بھر کے شہری خوش نہیں ہیں، وہ سوچتے ہیں کہ نبیلہ کو اس سے زیادہ توجہ ملنی چاہئے تھی، لیکن ملالہ کے مقابلے میں انہیں کافی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ وہ اس بات پر بھی پریشان ہیں کہ کانگریس کی سماعت کے دوران جب نبیلہ نے اپنی گواہی پیش کررہی تھیں تو اس وقت اراکین کانگریس کی موجودگی بہت کم (محض پانچ سینیٹر) تھی۔ پاکستان بھر میں لوگ نبیلہ اور ڈرون حملوں سے متاثر ہونے والے دیگر افراد کی حالت زار کے حوالے سے بڑے پیمانے پر آگاہی اور توجہ بیدار کرنے کے لیے آن لائن ترغیب دے رہے ہیں۔ لہٰذا جب ملالہ کو اپنے مقصد کے لیے مغرب کی حمایت حاصل ہے، نبیلہ پاکستان کے عوام کی بھاری حمایت کو اپنے حق میں محفوظ کر چکی ہیں۔ ایسے میں ایک بہن فرزانہ ، اپنے بھائی کی گمشدگی کا سوال لیے ہمیشہ کی طرح تنہا ہی کھڑی ہے۔ اور تاحال وہ مسلسل مارچ کررہی ہیں۔ بہت سی بین الاقوامی طاقتوں کے نزدیک بلوچستان کے بارے میں بات کرنے اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات پر بات کرنے سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں پیچیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ پہلے ہی تیزی سے بحران کا شکار ہوتے پاکستان کے ساتھ بہت سی مغربی طاقتوں کے تعلقات غیر فعال ہوتے جارہے ہیں۔ چنانچہ بلوچ کاز کے لیے بات کرنے کا سردرد کون پالے گا، مختصراً یہ کہ اس سے ان کے اپنے قومی سلامتی کے مفادات براہِ راست اثر پڑتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے لیے بلوچستان مکمل طور پر ایک ”نو گو ایریا“ بنا ہوا ہے، صرف یہی وجہ نہیں ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر باہر کے لوگوں کے لیے غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ انٹیلی جنس حکام کی طرف سے صحافیوں اور کیمرہ مینوں کو اجازت دینے سے فوری طور پر انکار کردیا جاتا ہے۔ شاید پاکستان کے اپنے مقامی میڈیا کو بلوچستان سے مکمل طور پر یا محدود طرزوں میں اسٹوریز باہر لے جانے پر سخت ہدایات دی گئی ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد کا اس بات پر یقین کرنا بہت زیادہ آسان ہے کہ ایک قوم کی خودمختاری کی خلاف ورزی صرف بیرونی طاقتوں کی جانب سے ہوسکتی ہے۔ جس طرح ڈرون حملوں کے متاثرین کے لیے ماضی میں ریلیاں نکالی جاتی رہی ہیں، اس طرح کی کوئی ریلی کراچی، لاہور یا اسلام آباد میں نہیں نکالی گئی۔ نہ ہی کبھی اس حقیقت کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ نبیلہ کس طرح طویل فضائی سفر طے کر کے واشنگٹن ڈی سی میں امریکی کانگریس کے سامنے یہ سوال کرنے پہنچی کہ ”اس کی دادی امّاں کو تم نے کیوں مارا؟“ایسا ہی سوال پاکستان کی اپنے پارلیمنٹ کے ایوان میں آخر فرزانہ کیوں نہیں پوچھ سکتیں؟ کیا فرزانہ پاکستانی قانون سازوں سے یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتیں کہ ”میرا بھائی کہاں ہے؟“فرزانہ مجید کے بھائی اور تمام لاپتہ بلوچ خواتین و حضرات بدقسمتی سے ڈرون حملوں کے متاثرین نہیں ہیں، نہ ہی وہ طالبان کی بربریت کے متاثرین ہیں۔اس کے باوجود وہ اب تک ایک معلوم اور نامعلوم دشمن کے ہاتھوں سے متاثر ہوئے ہیں، جو ان کے بنیادی حقوق کے مطالبے اور ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے دشمن ہیں۔ فرزانہ کا سفر جاری ہے، وہ جانتی ہیں کہ جب وہ کراچی پہنچیں گی تو وہاں ان کے لیے نہ ہی سیاستدان ہوں گے یا عوام کا ہجوم ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے ان کا منتظر ہوگا۔ حکومت اور پاکستانی عوام کو تو چھوڑیے اقوامِ متحدہ اور اہم عالمی طاقتیں بھی ان کے بھائی کی گمشدگی کی مذمت نہیں کریں گی۔ انہیں اس جنگ میں تنہا ہی لڑنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایک ایسی جنگ جسے وہ اس وقت تک ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جب تک کہ ان کے بھائی ان کی امید کے مطابق زندہ گھر واپس نہیں آجاتے
B A Baloch

B A Baloch

No comments:

Powered by Blogger.